Rahma Binte Saeed
اس سے پہلے کہ ہم کہانیوں تک پہنچیں میں آپ لوگوں کا مختصر تعارف پیش کرتا ہوں۔ لہذا میں اپنے 4 دوستوں کے ساتھ 9 یا 10 کے قریب اپنی کلاسوں کے بعد رات کو KU میں گھومتا تھا صرف کچھ پیرا نارمل ایکٹیویٹی تلاش کرنے کے لئے اور3 ماہ کے دوران ہمیں کچھ روحانی چیزوں کا سامنا کرنا پڑا لہذا میں آپ لوگوں کوان تمام واقعیات کو بتانے والا ہوں.
کہانی وہاں سےشروع کرتا ہوجہاں سے یہ سب شروع ہوا۔
چنانچہ 4 سال پہلے آر سی کینٹین ایک طرح کی لیٹ بیک کینٹین ہوا کرتی تھی جس میں کم شور، کم روشنی، زیادہ درخت/جھاڑیاں اور پرسکون تھی۔
میں اس وقت فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا اور میں اپنے 4 دوستوں کے ساتھ گھومتا تھا جو دوسرے سال میں تھے، ہم RC میں رہتے تھے (جب تک رینجرز والے ہمیں ظلیل کر کےنکالتےنہیں تھے) 9 بجے تک یا کبھی کبھار رات 10 بجے تک.
ایک دن ہمیشہ کی طرح پوری آر سی خالی ہوگئ تھی اورہمارےعلاوہ کچھ اکہ دوکا لوگ ہی بیٹھے تھے اورتب ہی میرے ایک دوست نے جھاڑیوں سے آواز آتی سنی (آر سی کے آس پاس جھاڑیاں تھی تب جہاں اب پارکنگ ہے) اس نے فوراً ہمیں بتایا۔ ہم نے اسے نظر انداز کر دیا لیکن پھر ہم سب نے بیک وقت ایک آواز سنی۔ (جیسے کوئی تکلیف میں بلارہا ہو) پھر کیا تھا اندر کے جنات کا شکاری جاگا پھر ہم سارے نکل پڑےاس آواز کے پیچے فون کی مشعل جلا کر۔ ہم جھاڑیوں میں گئے ( جواب پارکنگ ہے) اور جھاڑیوں سےہم نے ایک آدمی کا سایہ دیکھاVS ڈیپارٹمنٹ میں بھاگتا ہوا، پہلے تو ہم سب خوفزدہ ہو گئے اور چیختے ہوئے اور آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے اپنی بائیک کی طرف بھاگے۔(پرکیراتوتھانا) چنانچہ ہم مڑ کر واپس وی ایس ڈیپارٹمنٹ کے سامنے آگئے۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ VS کینٹین (جو بند تھی) سے کوئی ہمارے قریب آرہا ہے، شکر ہے کہ وہ یونیورسٹی کا گارڈ تھا،وہ ایک دلکش آدمی تھا جس کی جلد دودھ جیسی سفید اور سبزرنگ آنکھیں (ہاں اتنی اچھی طرح یاد ہے اس کے نقش)ہم نے اس سے پوچھا "بابا آپ نے یہاں سے کسی کوجاتے ہوۓ دیکھا VS ڈیپاٹمنٹ کی طرف؟" جس پر انہوں نے کہا ’’نہیں میں نے تو کسی کو نہیں دیکھا کیوں کیا ہوا؟‘‘ ہم نےان کو سارا منظر نامہ سنایا پھر اس نے کہا میرے ساتھ ڈیپارٹمنٹ میں آؤ اور خود ہی دیکھو، اور ہم اس کے ساتھ گئے (ہاں ہم گدھے تھے) VS کی طرف جاتے ہوئے ہم نے اس سے پوچھا "بابا یہاں جن بھوت تو نہیں ہے نا؟ ؟" انہوں نے جواب دیا "کراچی یونیورسٹی میں بہت لوگ رہتے ہیں جیسے آپ لوگ یہاں صبح شام میں پڑھائی کرتے ہوں ایسے ہی رات میں انکے بچے پڑھائی کرتے ہیں"۔ہمارا اس کے جواب پربلکل بھی دھیان نہیں گیا کیونکہ ہم وی ایس ڈیپارٹمنٹ میں کسی کو یا کسی چیز کی تلاش میں مصروف تھے.بہت اندھیرا تھا لیکن ہم سکون سے کھڑکیوں کے ذریعے کلاس رومز میں چھپ کر ڈیپارٹمنٹ کے ارد گرد چھپے ہوئے تھے (اورکوئی ڈربھی نہیں لگا تھا بھائی۔ )
بابا نے پھر سے بولنا شروع کیا "یہاں کے بہت سے ڈیپارٹمنٹس میں جنات رہتے ہیں" اس نے فارمیسی، باٹنی، اسٹاف سوسائٹی، فٹبال گراؤنڈ اور کچھ دوسروں کا ذکر کیا (جو مجھے یاد نہیں) وہ ان کے بارے میں سب کچھ ایسے بتا رہے تھے جیسے وہ کسی نہ کسی طرح جانتے ہوں۔ .
جب ہمیں کوئی مشکوک چیز نہ ملی تو ہم نے وہاں سے جانے کا فیصلہ کیا اور جاتے وقت ہم نے ان سے پوچھا "بابا آپ تو جن نہیں ہونا؟" (طنزیہ انداز میں) جس پر انہوں نے جواب دیا "مجھے تو آپ لوگ جن لگ رہے ہو" اور ہم سب ہنس پڑےاس پر.
پھرہم اپنی بائیک کی طرف گئے پھرہم نے پوچھا "بابا آپ کو کہاں چھوڑیں؟" اس پر بابا نے کہا "آگے تک چھوڑدوبیٹا" میرا دوست اسامہ اپنی موٹر سائیکل پر اکیلا تھا تو بابا اس کے پیچھے بیٹھ گئے اور ہم سوار ہونے لگے جب ہم UBL کے قریب پہنچے تو اس نے پوچھا بابا سےتو بابا نے بولا "بس بیٹا یہاں اتاردو" جیسے ہی اسامہ نے بابا کواتارا تواس نے زور سے چلایا "بائیکس بھگاؤ اور پیچھے مڑ کر مت دیکھنا اس بابا کو جو کہ گارڈ تھا " جیسا کہ اس نے کہا ہم سب نے کیا، لیکن میں اور ایک اور دوست سعد خود کو روک نہیں سکے اور ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور حیرت سے وہ ایک ایسی جگہ پر غائب ہو گیا جو خالی تھی اور چھپنے کی جگہ نہیں تھی۔
ہم نے اپنی بائیک اس وقت تک نہیں روکی جب تک ہم مسکان چورنگی (جہاں عوام کا رش تھا) پر نہیں پہنچ گئے ہم نے اسامہ سے پوچھا کیا ہوا تم نے ایسا کیوں کہا؟ وہ لفظی طور پر کانپ رہا تھا اوربرف کی طرح ٹھنڈا تھا میں نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور ایسا لگا جیسے میں نے اپنا ہاتھ برف کی سل پر رکھا (وہ جگہ جہاں اس گارڈ نے اسے چھوا تھا) تھوڑی دیر بعد اس نے بولنا شروع کیا اس نے کہا "جیسے ہی وہ میرے پیچھے بیٹھا پہلےتومجھے کوئی وزن ہی محسوس نہیں ہوا اور جب کوئی بائیک پر بیٹھتا ہے پتا چلتا ہے پر ایسا لگا ہوا ہے بس پھر جب اس نےمیرے کندھے پرہاتھ رکھا تو ایسا لگاکہ برف رکھ دی ہو کسی نے (اورجونہیں جانتےہوان کے لیے بتادوں وی ایس سے یو بی ایل کا 1 منٹ کا بھی راستہ نہیں ہے) تو بس میں سمجھ گیا تھایہ انسان نہیں ہے کوئی اور مخلوق ہے۔
اور پھر ہم نے نقطوں کو جوڑنا شروع کیا۔
سب سے پہلے وہ بندہ چل کر ہمارے پاس آیا تھاوہ بھی وی ایس کینٹین کی جھاڑیوں سے پر اسکی خیری (سینڈل)پر بلکل بھی مٹی نہیں تھی.
دوسری بات یہ کہ وہ چمک رہا تھا اور اس کی مسکراہٹ اتنی دلکش تھی کہ ہم سب اس کے آس پاس آرام سے محسوس کر رہے تھےاوروہ لمبے راستے سے چل رہا تھا لیکن اس کے چہرے پر پسینے کا کوئی نشان نہیں تھا۔
اس نے ہمیں جنوں کے بارے میں باتیں بتائیں کیونکہ وہ انہیں اچھی طرح جانتے تھے اور "جیسی آپ لوگ یہاں دن میں پڑھتے ہو ویسے ہی انکے بچے رات میں پڑھتے ہیں "تو یہ باتیں اب سمجھ میں آرہی تھیں۔
اس نے ہمیں ان تمام محکموں کے بارے میں بتایا جہاں ہمیں جنات مل سکتے تھے ۔
پھر ہمیں احساس ہوا کہ یہ کیا ہوگیا ہمارے ساتھ ۔
اور ہم نے فیصلہ کیا کہ اب تو دیکھنا ہے بھائی کہاں کیا کیا ہے اور ہم نے اپنا سفر شروع کیا
پی ایس- اسے 4 سال ہو گئے ہیں اور ہم نے یونیورسٹی میں اس گارڈ کا چہرہ دوبارہ کبھی نہیں دیکھا لیکن ہم سب کو اس طرح یاد ہے جیسے ہم نے اسے کل دیکھا تھا۔
مزید کہانیاں اس پر موصول ہونے والے تاثرات کی بنیاد پر آئیں گی۔
کمینٹس سیکشن میں اپنی رائے دیں اور ہمیں اپنی کہانی ای میل کریں اور ہم اپ کی کہانی اپنے بلاگ پر ڈالیں گیں
Read In English
Before we get to the stories, let me give you a brief introduction. So I used to hang out with my 4 friends at KU at night after my classes around 9 or 10 just to find some para-normal activity and during 3 months we encountered some spiritual things so I told you all the facts. I'm going to tell.
The story begins where it all started.
So 4 years ago RC Canteen was a kind of late back canteen with less noise, less light, more trees / bushes and quieter.
I was a first year student at the time and I was hanging out with 4 of my friends who were in second year, we lived in RC (until the Rangers humiliated us and drove us out) till 9 o'clock or sometimes till 10 o'clock at night.
One day as usual the whole RC would be empty and there were only a few people sitting besides us and then a friend of mine heard a noise coming from the bushes (there were bushes around the RC then where there is parking now) he immediately told us. We ignored it but then we all heard a voice at the same time. (As if someone is shouting in pain) Then what happened? The hunter of the giants inside woke up. We went into the bushes (the answer is parking) and from the bushes we saw the shadow of a man running into the VS department. We turned back to the VS department. Suddenly we saw someone approaching us from the VS canteen (which was closed), thankfully he was a university guard, he was a handsome man with milky white and green eyes (yes I remember him so well). We asked him, "Dad, did you see anyone walking from here to the VS department?" To which he said, "No, I did not see anyone. Why?" We told him the whole scenario. Then he said, "Come with me to the department and see for yourself, and we went with him. We were donkeys. On the way to VS, we asked him, "Baba, isn't there a ghost here?" He replied, "There are a lot of people living in Karachi University. You study here in the morning and in the evening. Their children study in the same night." Or we were looking for something. It was very dark but we were quietly hiding in the classrooms through the windows around the department (and there was no fear, brother.)
Baba started saying again, "There are giants in many departments here." He mentioned pharmacy, botany, staff society, football ground and some others (which I don't remember). Were as if they knew somehow. .
When we did not find anything suspicious, we decided to leave, and as we were leaving, we asked him, "Dad, aren't you?" (Sarcastically) to which he replied "I think you guys look like that" and we all laughed at him.
Then we got on our bikes and asked, "Daddy, where are you going?" Baba said to him, "Leave me alone, my son." My friend Osama was alone on his motorbike, so Baba sat behind him and we started riding. When we got close to UBL, he asked Baba. Get off. "As Osama shouted at Baba Kwatara Tawas," Ride the bikes and don't look back at the Baba who was the guard. " We couldn't and we looked back and to our surprise he disappeared in a place that was empty and there was no place to hide.
We didn't stop our bikes until we reached Maskan Chowrangi (where there was a rush of people). We asked Osama what happened. Why did you say that? He was literally shivering and cold as ice. I put my hand on his shoulder and it was as if I had put my hand on the ice board (the place where the guard touched him). He began to speak. He said, "As soon as he sat behind me, I did not feel any weight. And when one sits on the bike, one finds out that he is wearing it. (And for those who don't know, there is not even a 1 minute walk from VS to UBL) so I just understood that this is not a human being, there is another creature.
And then we started connecting the dots.
The first thing that servant came to us on foot was that there was no dirt on the sandals on the bushes of VS canteen.
Secondly, he was shining and his smile was so charming that we all felt comfortable around him and he was walking a long way but there was no sign of sweat on his face.
He told us things about the jinn because they knew them well and "as you read here during the day their children read at night" so these words were now understood.
He told us about all the departments where we could find giants.
Then we realized what had happened to us.
And we decided that it was time to dump her and move on
PS: It's been 4 years and we've never seen the face of this guard at university again.
Leave your feedback in the comments section and email us your story and we will post your story on our blog.achikahania@gmail.com
No comments: